کورونا وائرس کی
وباءجوکہ چین کے شہر ووہان سے ڈسمبر 2019 میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی تین
ماہ کے اندر اس نے تقریباً ساری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا ہے ۔ تاحال یہ مہلک وائرس
80 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہیں جبکہ
3 ہزار سے زیادہ افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کی نیند سوگئے ہیں جبکہ ہرگزرتے دن کے
ساتھ نہ صرف اس کے پھیلاؤمیں اضافہ ہورہا ہے بلکہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں
اضافہ ہورہا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے صرف انسانی جانیں ہی ضائع نہیں ہورہی ہیں بلکہ
ساری دنیا کو معاشی بحران کا شکار بھی ہونا پڑرہا ہے ، لیکن ان سب حالات کے باوجود
عوام میں کوروناوائرس کے متعلق خوف زیادہ اور معلومات کم ہیں۔
سب سے پہلے توکورونا وائرس سے اتنا خائف ہونے کی ضرورت نہیں
کیونکہ اگر پرسکون ذہن سے کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور اس وباءکی وجہ سے ہلاک ہونے
والے افراد کے اعدادوشمارکیا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وائرس سے متاثرافرادکی
تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے یعنی
ہلاکتوں کا تناسب 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والے افراد کی اکثریت
چین اور ایران سے تعلق رکھتی ہے جہاں اس وقت موسم سرد ہے۔
چین سے شروع ہوکر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے
وائرس سے خوف زدہ ہونے کی بجائی اگر اس کے متعلق موصولہ خبروں کا تجزیہ کیا جائے تو
اندازہ ہوجاتا ہے کہ جس قدر عوام اس وائرس سے خوف زدہ ہے اتنا خوف زدہ ہونے کی ضروت
نہیں اورخاص کر ان ممالک کے عوام کو تو قطعی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں جہاں کا درجہ
حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ کورونا وائرس سے خوف سے باہر نکلنے کےلئے ہمیں اس وائرس کے چین
سے شروع ہوکر دیگر ممالک تک پھیلنے کے درپردہ جغرافیائی ، ماحولیاتی ، معاشرتی ، سائنٹفک
اور اسلامی تناظر میں تجزیہ کرنا ہوگا جس کے بعد برصغیر کے عوام یقیناً راحت کی سانس
لیں گے کیونکہ تجزیہ کے بعد جوحقائق منظر عام پر آئیں گے وہ ہمیں کورونا وائرس کے خوف
سے باہر نکلنےمیں مددگار ہوں گے۔
کورونا وائرس اور موسمی حالات :
چین کے شہر ووہان میں سب سے پہلے 31 ڈسمبر 2019 کو کورونا
وائرس کے مریضوں کی توثیق کی گئی یعنی ڈسمبر کے مہینے میں چین نے سب سے پہلے کوروناوائرس
کی اطلاع ساری دنیا کودی جس کے بعد چین نے 11 جنوری 2020 کوکورونا وائرس سے پہلی ہلاکت
سے ہمیں مطلع کیا ہے جس میں کہا گیا کہ ایک 61 سالہ شخص جوکہ ووہان کی مچھلی اور مرغی
مارکٹ کا مستقل گاہک تھا وہ اس وائرس کی وجہ سے موت کی نیند سوگیا ہے۔
کورونا وائرس کے متعلق یہ اطلاع بھی اہمیت کی حامل ہے کہ
وہ سرد موسم میں ہی پھیلتا ہے اور اگر اس حقیقت کے تناظر میں ڈسمبر میں چین کا درجہ
حرارت دیکھیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس وقت وہاں کا درجہ حرارت منفی 2 ڈگری سلسیس
تھا جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس سرد ممالک میں ہی تباہی مچارہا ہے جیسا
کہ اٹلی جہاں کا درجہ حرارت منفی 4 ڈگری سلسیس ، ایران کا درجہ حرارت منفی 10 تا
12 ڈگری ، جاپان جہاں کا درجہ حرارت منفی دو سے مثبت 12ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور
یہی وہ ممالک ہیں جہاں کورونا وائرس تیزی نہ صرف پھیلا بلکہ اس نے کئی لوگوں کو اپنا
شکار بناتے ہوئے انہیں موت کی نیند سلادیا ہے ۔
گرم ممالک میں کورونا وائرس کا اثر :
چین ،ایران اور اٹلی سے یہ وائرس ہندوستان ، پاکستان اورسعودی
عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین ، کویت اور دیگر خلیجی ممالک میں پھیلا ہے لیکن ان
ممالک میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جانے کے علاوہ ان گرم علاقوں میں اس
وائرس کا پھیلاؤ کافی سست رہا جبکہ ایک مثبت خبر یہ بھی رہی کہ پاکستان میں کورونا
وائرس کا جو پہلا معاملہ درج ہوا تھا وہ مریض علاج کے بعد دواخانہ سے ڈسچارج بھی ہوگیا
ہے ۔ یہ ہی وہ خبر بھی ہے جس کے بعد عوام کو کسی قدر راحت کی سانس میسر ہوئی۔ کورونا
وائرس کے ماحولیات کے تناظر میں ہونے والے مطالعہ نے یہ پہلو اجاگرکیا ہے کہ جہاں درجہ
حرارت 10 تا 15 ڈگری کا ہوجائے وہاں کورونا وائرس کی دہشت کم ہونے کے امکانات ہیں۔
ہندوستان کی جنوبی ریاستوں جیسا کہ تلنگانہ کے دارالحکومت میں ماہ مارچ میں نہ صرف
درجہ حرارت 35 ڈگری سلسیس کے قریب پہنچ چکا ہے بلکہ موسم گرما بھی اپنی موجودگی کا
احساس دلانے لگا ہے۔
وائرس کا انسانی جسم کے ساتھ برتاؤ :
کورونا وائرس سے پیدا خوف کے ماحول کے دوران انسانی جسم
پر کسی بھی وائرس کے متعلق کئی معلومات بھی فراہم کی جانے لگی ہیں۔ ویسے توہوا میںکئی
قسم کے وائرس موجود ہوتے ہیں جو ہمارے جسم سے چسپاں بھی ہوجاتے ہیں لیکن وہ ہمارے جسم
سے ٹکراتے ہی اس میں داخل نہیں ہوجاتے بلکہ ہر وائرس کا انسانی جسم میں داخل ہوجانے
کے اوقات الگ الگ ہوتا ہے ۔
انسانی جسم پر جب کوئی عام وائرس لگتا ہے تو اسے جسم میں
داخل ہونے کےلئے 24 گھنٹوں سے لیکر 9 ہفتوں کا وقت لگتا ہے لیکن وبائی وائرس جب انسانی
جسم سے ٹکراتا ہے تو وہ اس میں داخل ہونے کےلئے 9 گھنٹے کا وقت لیتا ہے جبکہ کورونا
وائرس کے متعلق ابتدائی معلومات میں کہا گیا ہےکہ یہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے
کےلئے 48 گھنٹوں کا وقت لیتا ہے یہ ہی وہ وجہ ہے کہ ڈاکٹرس بار بار صابن سے ہاتھ دھونے
کا مشورہ دے رہے ہیں۔
کورونا وائرس کےلئے چین اور ہندوستان کے حالات مختلف :
کورونا وائرس کی ابتداءچین سے ہوئی ہے وہاں کے لوگوں کی
غذائیں کیا ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں چینی باشندے وہ بھی کھاجاتے ہیں جنکا نام لینے سے
بھی ہندوستانیوں کو قئے آنے لگتی ہے لہذا بہتر غذاؤں کے معاملے میں ہندوستانی عوام
چینی باشندوں کی بہ نسبت بہتر غذاوں کا استعمال کرتے ہیں یہ بھی ان مثبت پہلووں میں
شامل ہے جوکہ کورونا وائرس کے خلاف ہمیں حوصلہ دیتا ہے۔
کورونا وائرس اور اسلام :
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ یقین ہے کہ زندگی اور موت اللہ تبارک
تعالی کے ہاتھ ہے اور وبائی مرض اللہ کے غضب کی ایک شکل ہے ۔اللہ کے غصہ اور غضب کو
اپنے گناہ پراستغفار ، صدقہ اور خیرات کے ذریعہ کم کیا جاسکتا ہے ۔ویسے بھی ہمارے آقا
تاجدار مدینہ ﷺ کا بھی یہ معمول رہا کہ جب کوئی آفت آتی تو آپ ﷺ نماز کی طرف رجوع ہوتے
تھے ۔کورونا وائرس سے حفاظت کےلئے نماز کی طرف رجوع ہونے کے ایک روحانی فائدہ ہے تو
دوسرا سائنٹفک فائدہ بھی ہے۔ نماز، اذکار اور صدقہ وخیرات سے جہاں روحانی تقویت ملتی
ہے تو وہیں وضو سے وہ پاکی بھی مل جاتی ہے جس کا ماہرین مشورہ دے رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف وضو سب سے طاقتور ہتھیار :
کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو
پایا ہے لہذا احتیاط کو علاج سے بہتر مانتے ہوئے ڈاکٹرس صاف ستھرے رہنے اور وقتاً فوقتاً
صابن سے ہاتھوں کو دھونے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن وضو دنیا کا وہ واحد طریقہ ہے جس
میں ناک میں پانی ڈالاجاتا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس تنفس کے نظام
کو متاثر کرتاہے اور سانس لینے کے لئے انسان ناک کا ہی استعمال کرتا ہے ۔ دنیا کے تمام
لوگ بھلے ہی اچھے سے اچھے صابن سے منہ اور ہاتھ دھولیں لیکن وہ وضو کی طرح ناک میں
پانی ڈال کر صفائی حاصل نہیں کرسکتا جبکہ ایک عام درجہ کا مسلم بھلے ہی اس کا وضو ناقص
ہولیکن وہ ناک میں پانی ڈال کر ضرور اس کی صفائی کرتا ہے لہذا جب ناک کی صفائی ہوجائے
گی تو پھر وائرس کی موجودگی اور تنفس کے نظام کو متاثر کرنے کے خدشات بہت ہی کم ہوجاتے
ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت :
انسانی جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی جو قوت ہوتی ہے اسے
قوت مدافعت (ا میونیٹی پاور) کہا جاتا ہے اور جس شخص میں مدافعت کی قوت زیادہ ہوتی
ہے وائرس اس شخص کے خلاف اتنے ہی کمزور ہوجاتے ہیں۔
مدافعت کی قوت بڑھانے میں ورزش (چہل قدمی، سیکل چلانا ،
جاگنگ، تیراکی یا جم میں ورزش) اہم رول ادا کرتی ہے جبکہ ترکاریاں اور پھلوں کے ساتھ
کچی پیاز، کھیرا ، ٹماٹر، لہسن کا سلاد بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔شہد ، کھجور اور زمزم
بھی ہمارے گھروں میںآسانی سے مل جاتے ہیں ان کا استعمال بھی اس وبائی مرض کے خلاف موثر
ہوگا۔وٹامن سی بھی قوت مدافعت کو بڑھانے میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔ لیمو، سنترہ ، رتالو،
ٹماٹر اورگوبھی میں وٹامن سی زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے ۔ جو افراد شربت کے دلدہ
ہیں وہ لیمو اور سنترہ کے شربت سے نہ صرف لطف اندوز ہوسکتے ہیں بلکہ کورونا وائرس کے
خلاف اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔
ان تمام معلومات کا ماحصل یہ ہے کہ کورونا وائرس سے خوف
زدہ ہونے کی بجائے کورونا وائر س کی علامتیں ، علاج اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے
ہوئے پرسکون ہوجائیں اور دوسروں کےلئے بھی حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔
1 تبصرے
Masha allah bahut maloomati mazmoon hai jazakallah
جواب دیںحذف کریں