حالیہ
دنوں میں دو موضوعات ذہن میں ایک دوسرے سے متصادم رہنے کی وجہ سے ایک بے چینی تھی ،کیونکہ اس وقت مسلم سماج میں کئی ایک خرافات اس
طرح اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہیں کہ اب برائی کو برائی سمجھنے کا تصور بھی ہم میں ختم
ہونے لگا ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا وہ کام آج ہماری نظروں میں معیوب
ہو چکا ہے بلکہ اگر کوئی ہمت کر کے بھی وہ جائز کام کرجائے تو اسے برا بھلا بھلا کہا
جانے لگا ہے، جبکہ ایسی کئی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جن کو اسلام نے صاف منع کیا لیکن ان تقاریب کے
انعقاد پر نہ صرف لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں بلکہ ان تقاریب کے انعقاد کو سماجی
رتبے والا فخر یہ کام سمجھا جانے لگا ہے۔
یہ دو موضوعات ایک دوسری شادی ہے تو دوسرا برتھ
ڈے پارٹی (سالگرہ تقریب) ہے۔ برتھ ڈے پارٹی اب مسلم سماج میں صرف ایک خوشی منانے کی تقریب کی
حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اس نے تیوہاراورعید کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ اگر بچہ چھوٹا ہوتو
والدین اس کی برتھ ڈے پارٹی کو بڑی دھوم دھام
سے مناتے ہیں ،جس کے لئے بسا اوقات لاکھوں روپے کے کرائے کا شادی خانہ منتخب کیا جاتا ہے جہاں باضابطہ بچے
کی عمر کی مناسبت سے کیک اور اس کیک پر موم
بتیاں بھی لگائی جاتی ہیں ۔مسلم سماج میں برتھ ڈے پارٹی کا جشن جس انداز میں منایا
جاتا ہے وہ عیسائی طریقے کی نقل ہے ،جبکہ اسلام نے دوسروں کی نقل کرنے یا ان جیسا طریقہ
اختیار کرنے سے صاف منع کیا ہے اور اگر بچے جوان ہو تو وہ اپنی برتھ ڈے پارٹی دوستوں
کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر مناتے ہیں اور برتھ ڈے کیک ایک دوسرے کے چہروں پر ملتے
ہیں ، جو غذا کی بے حرمتی کا کھولا ثبوت
ہے اور ایسی حرکت سے بھی ہمارا
مذہب منع کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاں برتھ ڈے پارٹی کی ممانعت
ملتی ہے تو و ہیں طبی اور میڈیکل سائنس نے بھی سالگرہ کی تقاریب اور اس موقع پر تحفے
تحائف کا جو رواج ہے اس کے کئی ایک منفی پہلووں کے علاوہ نفسیاتی نقصانات پربھی روشنی ڈالی ہے۔
مذہبی اور سائنسی اعتبار سے سالگرہ تقریب نقصان کا سبب ہے
لیکن اس کے باوجود یہ ہماری زندگی کا آج ایک اہم حصہ بن چکا ہے اور اگر کوئی اس کے
خلاف کوئی بات کہتا بھی ہے تو اس سے ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس
ایک سے زائد شادیاں (ازدواج) جس کی صدیوں قبل اسلام نے اجازت دی ہے اسے آج مسلم سماج
قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہے حالانکہ صرف
معاشرتی زاویے سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو دوسری شادی یا ایک سے زائد ازواج کا رواج ہمارے سماج
کے کئی مسائل کو حل کرنے کے علاوہ مسلم خاندانوں
کو دنیا اور آخرت کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
شادی کے نام پر یونیورسٹی کے نامور استاد کی جانب سے اپنی ہی طالبہ کی عصمت ریزی اور دھوکہ دہی، مسلم خاتون کے غیر مسلم مردکے ساتھ ناجائز تعلقات اور شادی کے لیے دباؤ ڈالنے پر قتل کردینے کے واقعات خبروں کی
زینت بننے والے دو حالیہ واقعات ہیں لیکن مسلم سماج میں ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں جو عصمت ریزی ، دھوکہ دہی
، ناجائز تعلقات اورقتل جیسے جرائم کی بنیادی وجہ ثابت ہوتے ہیں۔
مسلم سماج میں اس وقت موجود درجنوں مسائل کا ایک حل دوسری
شادی ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت سماج میں کنواری اور ان بیاہی لڑکیوں کی تعداد میں دن
بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ان کے اعدادوشمار کا کوئی سرکاری یا خانگی ڈیٹا فراہم کرنے کے
بجائے اگرصرف ہم اپنے خاندان اور جان پہچان میں ایسی لڑکیوں کی موجودگی پر ایک نظر
ڈالیں تو درجن سے زائد لڑکیاں ہماری نظروں کے سامنے ہی موجود ہوتی ہیں جبکہ ہمارے
اطراف موجود بیوہ اور مطلقہ خواتین کی تعداد ان مسائل میں مزید اضافہ ہے۔
بوائے فرینڈ کے اس موجودہ کلچر نے جہاں پہلے ہی ہماری لڑکیوں اور خواتین کی آخرت برباد کر
دی ہے تو دوسری جانب عزت دار سماج میں دوسری
شادی کو معیوب سمجھنے کے رویے نے ان کی دنیا بھی بربادکر
دی ہے۔
برتھ ڈے پارٹی جس میں چند لمحوں کی خوشی کے علاوہ دین یا
دنیا کا کوئی مستقل فائدہ نہیں لیکن ان تقاریب کو ہم نے آج زندگی کا ایک اہم جز بنا
لیا ہے اور اس پر ہمیں فخر بھی ہے لیکن دوسری شادی جس میں ہمارے سماج کے کئی مسائل
کا حل مضمر ہے اس کو ہم نے معیوب سمجھ لیا ہے۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ غیروں کے
طریقے پر چلتے ہوئے برتھ ڈے پارٹیاں بنانا ہے یا دوسری شادی کو معیوب سمجھنے کی ذہنیت
کو تبدیل کرتے ہوئے مسلم سماج اور خاص کر لڑکیوں اور مطلقہ خواتین کی شادیوں کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا
ہے؟
0 تبصرے