کورونا وائرس کی وجہ سے انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل ) کا 13 ویں ایڈیشن متحدہ عرب امارات میں کھیلا جارہا ہے جہاں خطاب کی دعویدار ٹیموں کے ابتدائی مرحلے میں مظاہرے مایوس کن ہیں جس میں خاص کر ہندوستان کے کامیاب ترین کپتان مہندرسنگھ دھونی کی زیر قیادت چینائی سوپر کنگس سرفہرست ہے جوکہ ابتدائی تین مقابلوں میں دو ناکامیوں کے بعد 8 ٹیموں کے جدول میں آخری مقام پر ہے جبکہ دوسری اہم ٹیم دومرتبہ کی چمپئین سن رائزرس حیدرآباد ہے جس نے ابتدائی 2 مقابلوں میں مسلسل دو ناکامیوں کے بعد تیسرے مقابلے میں دہلی کو شکست دیکر کامیابی کا کھاتہ کھولا ہے لیکن وہ بھی ٹیموں کے جدول میں ساتویں نمبر پر ہے۔
حیدرآباد کی آئی پی ایل ٹیم میں ویسے تو کئی اسٹار کھلاڑی موجود ہیں جن میں کپتان ڈیوڈ وارنر، انگلینڈ کے وکٹ کیپر اور وارنر کے ساتھی اوپنر جانی بیرسٹو،نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن ، افغانستان کے اسٹار اسپنر راشد خان قابل ذکر ہیں لیکن ان تمام میں ہمارے مقصد کا ایک نام خلیل خورشید احمد ہیں جوکہ خلیل احمد کے نام سے مشہور ہیں۔
خلیل احمد جو صرف ابھی 22 سال کے ہی ہیں لیکن انہوں نے 2 برس قبل ہی ہندوستان کے لئے اپنا بین الاقوامی کریئر شروع کیا ہے ۔خلیل احمد اس وقت خبروں کی زینت بنے تھے جب ہندوستانی ٹیم انگلینڈ میں منعقدہ ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کرچکی تھی اور اس ضمن میں کپتان ویراٹ کوہلی کے بیان کا خلیل حصہ بنے تھے کیونکہ کوہلی انگلش وکٹوں پر ایک بائیں ہاتھ کے بولر کی ٹیم میں شمولیت کے خواہاں تھے ۔
خلیل احمد جنہوں نے 18 ستمبر 2018 کو ہانگ کانگ کے خلاف اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا تھا جبکہ ہندوستانی ٹیم کےلئے انہوں نے 14 اگسٹ 2019 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ونڈے کھیلا ہے اس مختصر عرصے میں خلیل نے ہندوستان کی 11 ونڈے مقابلے میں نمائندگی کرنے کے ساتھ 15 وکٹیں اور 14 ٹی 20 مقابلوں 13 وکٹیں حاصل کی ہیں اور اگر آئی پی ایل کی بات کی جائے تو انہوں نے چینائی کے خلاف 2 اکٹوبر 2020 کے مقابلے سے قبل 12 مقابلوں میں 21 وکٹیں حاصل کی ہیں جس میں ان کا بہترین مظاہرہ 30 رنز دیکر 3 کھلاڑیوں کو آوٹ کرنا ہے۔
اس وقت سن رائزرس حیدرآباد میں بھونیشور کمار اور راشد خان ٹیم کے دو اہم نام ہیں اور انکی موجودگی میں خلیل احمد کو اپنا معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔اگر صرف آئی پی ایل میں خلیل احمد کی بولنگ کا تجزیہ کیا جائے تو انہوں نے فی اوور 8.83 کی اوسط سے رنز دئے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی20 برق رفتار کرکٹ کا نام ہے لیکن اس کے باوجود کئی ایسے بولر موجود ہیں جنکا فی اوور رنز دینے کا ریکارڈ کافی بہتر ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے وکٹوں کے خانہ میں کافی بہتر اعداد بھی درج کئے ہیں لہذا سن رائزرس حیدرآباد کے ساتھ خلیل احمد کوایک سنہری موقع ہے کہ وہ کمار اور راشد کے بعد خود کو ٹیم کا تیسرا بہترین بولر ثابت کریں لیکن یہ ان کے لئے آسان نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ مقابلے میں جب دہلی کیپٹلز کے خلاف مقابلہ آخری اوور میں پوری طرح حیدرآباد کے حق میں آچکا تھا تب خلیل احمد کے ذمہ آخری اوور تھا اور ان کے سامنے افریقی فاسٹ بولر ربادا تھے جہنوں نے خلیل احمد کی آخری اوور کی آخری گیند پر چھکا لگایا۔
ربادا کا اس مقابلے میں آخری گیند پر خلیل احمد کو چھکا لگانے سے حیدرآبادی ٹیم کو کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن ایک لمحہ کے لئے یہ سوچیں کہ اگر دہلی کو آخری گیند پر کامیابی کےلئے صرف 6 رنز درکار ہوتے تو کیا ہوتا؟ اگر ایسا ہوتا تو خلیل کی مشکلات مزید سنگین ہوتی کیونکہ ان کی ٹیم میں شمولیت خالص بولر کے طور پر ہوئی ہے اور انہیں بحیثیت بولر ٹیم کو کامیابی دلوانی ہے اور اگر وہ ربادا جوکہ ایک فاسٹ بولر ہیں انہیں ہی چھکا لگانے سے نہیں روک پاتے ہیں تو پھر جب انکے سامنے دنیا کے خطرناک بیٹسمین ہوں گے اور ٹیم کی کامیابی اور شکست کے درمیان صرف ایک باؤنڈری کا فرق ہوتو پھر ان حالات میں خلیل احمد کیسے حیدرآباد کو کامیابی دلوائیں گے؟خلیل احمد کو اپنا معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ وہ سن رائزرس حیدرآباد کےلئے کلیدی بولر ثابت ہونے کے ساتھ ہندوستانی ٹیم میں اپنی واپسی کی راہ ہموار کرسکیں ۔
0 تبصرے