اشتہار

سائبر ٹکنالوجی کا تعارف




آج ہم چاہے اردو میڈیم کےطالب علم  ہوں ، اردو ہماری مادری زبان ہو، یا پھر دنیا کی کسی زبان سے ہمارا تعلق ہو لیکن ایک مشترکہ ٹکنالوجی دنیا کا تقریباًہر فرد استعمال کرتا ہے جوکہ اسمارٹ فون کے ساتھ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال ہے لیکن کیا ٓپ نے کبھی سوچا ہے کہ اسمارٹ فون بغیر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر جس میں ڈسک ٹاپ ہو یا پھر لیپ ٹاپ یہ بھی بغیر انٹرنیٹ کے کتنے ادھورے ہوجاتے ہیں؟
اگر آپ کے پاس اسمارٹ فون ہو لیکن وہ انٹرنیٹ سے مربوط نہ ہو اور ایسے ہی اگر گھر یا دفتر میں کمپیوٹرز تو موجود ہوں لیکن وہ انٹرنیٹ سے مربوط نہیں ہیں تو انکی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ اس کے برعکس اگر انٹرنیٹ تو دستیاب ہے لیکن اسے استعمال کرنے کےلئے اسمارٹ فون یا کمپیوٹر موجود نہیں تو پھر انٹرنیٹ کا رہنا یا نہ رہنا برابر ہوگا۔
اس حقیقت کے بات یہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ انٹرنیٹ کا موجود ہونا اور اسے استعمال کرنے کے لئے اسمارٹ فون ،کمپیوٹر یا اس جیسا کوئی برقی آلہ بھی ہونا ضروری ہے تبھی ہم اس ٹکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور ٹکنالوجی کے اصطلاح میں ہی اسے سائبر ٹکنالوجی کہا جاتاہے ،یعنی اسمارٹ فون  یاکمپیوٹر کو جب انٹرنیٹ سے جوڑا جاتاہے تو ٹکنالوجی کا جو مکمل ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے وہ سائبر ٹکنالوجی کہلاتا ہے۔
کمپیوٹر کے ایجاد اور پھر انٹرنیٹ سے اس کو مربوط کرنے کے بعد مواصلاتی دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا کیونکہ یومیہ زندگی کے شخصی اور دفتری امور کی انجام دہی میں اس ٹکنالوجی نے اتنی آسانیاں پیدا کر دی کہ آج اس مواصلاتی نظام کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے درپردہ کارفرما عناصر کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 21 ویں صدی کے اس اہم ترین انقلاب کا بنیادی مقصد ریاضی اور حساب کتاب کے امور میں انسانی ذہنوں سے ہونے والی غلطیوں کو دور کرنا تھا اور کیالکولیٹر سے انجام دیئے جانے والے امور کے دائرے کار کردگی کو وسعت دینا تھا۔ 
مختلف مراحل کے تجربات اور برسہا برس کی ان تھک محنتوں کے بعد کمپیوٹر وجود میں آیا جس کے بعد محققین کی جماعتوں کے درمیان مواد کے حصول و ترسیل کو یقینی بنانے کے خیال نے کمپیوٹرس کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ان کے درمیان رابطہ قائم کیا اور اسی کوشش نے نٹ ورک جسے آج انٹرنیٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کی بنیاد رکھی۔ کمپیوٹرس کی ایجاد اور انٹرنیٹ سے ان برقی آلات کو مربوط کرنے کے بعد مواصلاتی نظام نے ایک نئی دنیا کا تصور دیا جس کو ’’سائبر ٹکنالوجی‘‘ کا نام دیا گیا۔

لفظ سائبر پہلی مرتبہ کب استعمال ہوا؟

لفظ  ’’سائبر‘‘  در اصل سابقہ ہے جس کے استعمال کے ذریعہ آج کئی نئے الفاظ ہماری یومیہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لفظ ’’سائبر‘‘ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ ’’سابقہ‘‘ ہے لیکن اس لفظ سے مراد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے یعنی کوئی بھی ایسا فعل جو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال  کے ذریعہ انجام پاتا ہے اُس کو لفظ ’’سائبر‘‘ کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ جس کی اول مثال  ’’ سائبر ٹکنالوجی‘‘ ہے ۔ 
سائبر ٹکنالوجی ایسا مواصلاتی نظام جہاں مواد کی حصول و ترسیل کمپیوٹر (جدید ترین شکل اسمارٹ فون )  اور انٹرنیٹ کے استعمال کے ذریعہ کی جاتی ہے، نیز گزشتہ چند د ہوں سے ایک لفظ  ‘‘سائبر کرائم’’  بھی کافی مشہور اور مروج ہو چکا ہے جس سے مراد ایسے جرائم ہیں جن کی انجام دہی کے لئے مجرم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ سائبر جرائم کی انجام دہی کے لئے جہاں مجرمین میں اعلیٰ تعلیمی قابلتیں ہوتی ہیں وہیں ان سائبر جرائم کے انسداد کے لئے قانون کے رکھوالوں میں بھی اس سائبر ٹکنالوجی کے متعلق اعلیٰ معلومات کا ہونا لازمی جز ہے۔
سائبر جرائم کے عروج کے ساتھ ان کی روک تھام کے لئے کئی قوانین متعارف کئے گئے اور ان قوانین کو ’’ سائبر قانون‘‘ (Cyber law)  کہا جاتا ہے اور یہ شعبہ آج تعلیم اور سند کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ سائبر انقلاب کے بعد اردو ادب اور اردو صحافت میں لفظ ‘‘ سائبر’’  آج تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ یہ ہی وجہ ویب سائٹ ‘‘ سائبر دنیا 19 ’’ متعارف کی گئی ہے جس کے عنوانات بھی سائبر ٹکنالوجی، سائبر اردو،سائبر ادب ،سائبر صحافت مقرر ہوئے ہیں تاکہ سائبر ٹکنالوجی کے ساتھ اردو زبان،اردو ادب اور اردوصحافت میں ہونے والی سرگرمیوں اور تبدیلیوں کو اردو قارئین تک پہنچائی جاسکے ۔
انگریزی ادب میں سب سے پہلے لفظ سائبر اسپیس(Cyber Space) کو ویلم گبسن نے اپنی ناول نیورومینسر (Newromancer)  میں استعمال کیا تھا جس کو امریکہ میں ایس بک نے 1984ء کو شائع کیا  لیکن اس سے قبل 1949ء میں نوربرٹ وینر کے یہاں بھی  ’’ سائبر نیٹک‘‘  کا استعمال ملتا ہے تاہم نوربرٹ کی تحریروں کا مبنع حیوانوں اور مشینوں کے درمیان رابطہ یا کنٹرول تھا لیکن گبسن نے اپنی تحریروں میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ انسان نے ایک ایسی دنیا کی تخلیق کی ہے جو حقیقی نہ ہونے کے باوجود زندگی کے حقائق کو پیش کرتی ہے۔
لفظ سائبر  کے استعمالات کے متعدد شواہد دستیاب ہوئے ہیں لیکن گبسن کی جانب سے استعمال کردہ تحریر، ہمیں ہماری مقصد کی تکمیل کرتی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ گبسن نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ در اصل ہمارے اردو ادب اور صحافت کے مقاصد کے عہد و پیما کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گبسن کی ناول نیو رومینسر میں راقم الحروف نے جس خیال کا اظہار کیا وہ حتی الامکان سائبر دنیا کی ترجمانی کرتا ہے کیونکہ سائبر دنیا سے اردو ادب اور اردو صحافت یہ ہی مراد لیتا ہے کہ انسان کی تخلیق کردہ ایک ایسی دنیا جہاں جغرافیائی (فاصلاتی) اعتبار سے دو افراد کے درمیان ایک خیالی دنیا وجود میں آتی ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ہونے والے اجلاس اور اس دوران ہونے والی گفت و شنید حقیقی ہوتی ہے یعنی ایک ایسی دنیا جس کا ایک پہلو خیالی تصور کیا جاتا ہے تو دوسرا پہلو حقیقی زندگی کا ترجمان ہے۔
بہرکیف سائبر ٹکنالوجی سے مراد کمپیوٹر(اسمارٹ فون) اور انٹرنیٹ کا ایک ساتھ جوڑا ہونا ہےاور اس لفظ سائبر کی وجہ سے سائبر ٹکنالوجی،سائبر دنیا،سائبر جرائم،سائبر دھوکہ دہی ،سائبر قوانین،سائبر اردو،سائبر ادب اور سائبر صحافت جیسی اصطلاحات اب اردو کا حصہ بن چکی ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے