اشتہار

جو نیکی کرکے پھر دریا میں اس کو ڈال جاتا ہے

والد محترم مولانا محمد عبدالسلام صاحب  نور اللہ مرقدہ کی زندگی کا اس آنکھوں نے جو مشاہدہ کیا اس کی ترجمانی یہ شعر بخوبی کرتا ہے۔

 ­ؔ   جو نیکی کرکے  پھر دریا میں  اس کو ڈال جاتا ہے

   وہ جب دنیا سے جاتا ہے  تو مالا مال جاتا ہے



        کہا جاتا ہے انسان جس طرح کی زندگی گزارتاہے اللہ رب العزت بندے کی موت کے وقت  ویسا ہی معاملہ فرماتا ہے ۔کتابیں اس طرح کے درجنوں واقعات کی شواہد ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں نے زندگی میں اپنے رب کو راضی کرنے کےلئے جو کوششیں کی ہیں، اللہ تعالی ٰ نے بندوں کی ان کوششوں کو قبول کی ہیں اوردنیا والوں کو اپنے نیک اور پسندیدہ بندوں کی موت کے وقت کی کیفیات کو  بطور نمونہ پیش کیا ہے  اور ایسے ہی مشاہدات راقم الحروف نے والد محترم مولانا محمد عبدالسلام صاحب  نور اللہ مرقدہ  کی روح پرواز ہونے سے لیکر تدفین کے اوقات میں کئے ہیں ۔

           والد محترم سے جو لوگ واقف ہیں ان کے لئے ابّا کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں لیکن دوسری جانب ہمارے اباؤاجداد کے احوال کو قلم بند کرنا جہاں اپنے والدین  کے حقوق ادا کرنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے تواس طرح کی  تحریریں  تاریخی دستاویزات بھی ہوجاتی ہیں جو شاید مستقبل میں کہیں کسی کے کام بھی آسکتی ہیں اورآج کا دور تو سائبر دور ہے جس نے  مواصلاتی ایسا انقلاب لایا ہے جہاں زندگی کا ہر اور چھوٹا  بڑا واقعہ محفوظ کردیا جاسکتا ہے  اور اس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے  کہ والد محترم کی زندگی کے چند حالات اور پہلوؤں کو محفوظ کیا جائے ۔

        والد محترم نے  ریاست تلنگانہ کے شہر سکندرآباد کے علاقے رسول پورہ پولیس لائن کی جامع مسجد (سدرۃ المنتھی ) میں تقریباً 60 برس امامت کے فرائض انجام دیئے  اور اپنی آخری سانس تک لوگوں کو قرآن حکیم  مع تجوید پڑھاتے رہے ، یہ ہی وجہ ہے ان کے شاگرآج دنیا کے تقریباً سبھی اہم ممالک میں موجود ہیں اور یہ تحریر بھی ان لوگوں کی خدمت میں پیش ہے جو ابا سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔

         بات چل رہی تھی بندہ جیسی زندگی گزارتا ہے ویسے ہی اسے موت آتی ہے  اور اس حقیقت کا  والد محترم کی موت پر صدفیصد مشاہدہ کیا گیا ۔والد محترم کا معمول تھا کہ وہ روز آنہ صبح 3:30 کے آس پاس  بیدار ہوجاتے ،بیت الخلاسے فارغ ہونے کے بعد وضو فرماتے ۔تہجد کی ادائیگی ،ذکر ،تلاوت قرآن  اس وقت تک کرتے جب تک کہ فجر کی اذان نہیں ہوجاتی ۔گھر اور مسجد میں صرف ایک دیوار حائل ہے لہذا اذان کے ساتھ ہی فجر سے قبل دورکعت سنت موکدہ  گھر میں ادا کرنے کے بعد  مسجد چلے جاتے ۔فجر کی نماز کی امامت کے بعد طلوع آفتاب تک تفسیر قرآن کی خدمت انجام دیتے ۔تفیسر کے بعد اشراق کی نماز اداکرنے کے بعد گھر واپسی ہوتی تھی ۔ابا کی زندگی کے آخری ایام میں علی الصبح بیدار ہونے سے لیکر فجر کی امامت کا فریضہ ادا کرنے تک اسی  معمول  کا راقم الحروف  نے مشاہدہ کیا ہے  ۔

             سلام خاندان کےلئے 25 جولائی 2020 مطابق 3 ذی الحجہ 1442ہفتہ کا دن قیامت صغری سے کم نہیں تھا  ، جب مغرب سے کچھ وقت قبل والد محترم کی روح پرواز کرگئی ،جس کےبعد ہر طرف ایک گہرام سا مچ گیا ۔راقم الحروف کو دفتر فون کرکے اطلاع دی گئی کہ اب والد صاحب اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔مغرب کی نماز گھر پہنچ کر ادا کی،  جس کے بعد ابا کی آخرت کے سفر کی تیاری شروع کی گئی ۔تمام افراد کو اطلاع دینے کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ تدفین کا منصوبہ کو بھی قطعیت دی جانے لگی اور فیصلہ کیا گیا کہ بعد فجر نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور تاڑبن سکندآباد کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئے گی ۔

          اب رات گزرنا مشکل تھا ،افراد خاندان پرغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا ہر کوئی زندگی کے نقصان عظیم کو برداشت کرنے تجربہ کررہا تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے رات کے 2:30 بج گئے پھر کسی نے مجھے آواز دی کہ غسل کے لئے پانی گرم کرنا شروع کردو۔ میں پانی گرم کرنے کی تیاری کرنے لگا اور جب پانی گرم ہوا غسل کی ساری تیاریاں مکمل ہوئی تو ابا کو نہلانے کمرے سے باہر لے جانے لگے تو میں نے گھڑی پرنظر دوڑائی تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ بغیر کسی منصوبہ کے وہی یہ وقت تھا جب ابا اپنی زندگی میں بھی نیند سے بیدار ہوکر تہجد اور فجر کی تیار ی کا آغاز کرتے تھے۔

         غسل دے کر جب مکمل طور پر ابا کو تیار کرلیا گیا  اورمسجد میں داخل ہونے کی تیاری کی جارہی تھی اس وقت فجر کی اذان ہوئی ۔یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ جس وقت ابا اپنی زندگی میں اکثر مسجد کی طرف چل پڑتے اس وقت ان کا جنازہ بھی مسجد میں داخلہ کا منتظر تھا ۔

           فجر کی نماز بڑے بیٹے مولانا محمد عاصم نشاط نے پڑھائی اور نماز فجر کے فوراً بعد چونکہ مکروہ وقت ہوتا ہے لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ مکروہ وقت ختم ہونے تک مسجد میں تلاوت قرآن پاک  کی جائے اور دیکھتے ہی دیکھتے کثیر تعداد میں لوگ جو مسجد میں موجود  تھے  سب نے قرآن حکیم  کے پارے تھام لئے اور ایصال ثواب کی نیت سے تلاوت قرآن میں مصروف ہوگئے ۔یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ ابا جو ساری زندگی فجر کے بعد قرآن مجید کی تفسیر اور درس وتدریس میں مشغول رہتے ان کے آخری سفر کے دن بھی اس وقت قرآن حکیم کے ساتھ  ہی سب مصروف تھے۔

     اس کے بعد جو منظرمیری آنکھوں نے دیکھا اس کو حسن اتفاق کہنے  سے زیادہ اللہ رب العزت کا والد محترم کو دنیا میں ہی آخرت کے سفر کےلئے اعزاز کہوں تو دل زیادہ  مطمئن ہوتا ہے کیونکہ ابا جو ساری زندگی امامت کرتے رہے  اور سارے مصلیوں کے آگے رہے ان کی آخری نماز میں بھی وہ سب سے آگے اسی مقام پر رہے جہاں انہوں نے ساری  زندگی نماز پڑھائی۔

      عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نماز جنازہ مساجد کے آخری حصہ میں ادا کی جاتی ہے لیکن اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹسنگ) کو برقرار رکھنے کےلئے ڈولے کو آگے بڑھانا شروع کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈولا ممبر کے قریب محراب میں جہاں امام کی جائے نماز ہوتی ہے وہاں تک پہنچ گیا کیونکہ مسجد میں عوام کو ہجوم تھا۔

      یہ میرے رب کی شان ہے کہ اس نے اپنے بندے  (ابا) کو آخری نماز میں بھی اس جگہ سے محروم نہیں کیا جہاں انہوں  نے ساری زندگی ا س کی بارگاہ میں رکوع و سجود کرتے رہے ۔ یہ منظر دیکھ کر میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں کی لڑی نکل پڑی  اور اپنے رب کا شکر بجالیا کہ اس نے  اپنے محبوب بندے کو اپنے دربار میں حاضری سے پہلے کے سفر کو اسی مقام سے شروع کروایا جس مقام کی ذمہ داری اس نے  ابا کو زندگی میں عطا کی  تھی ۔ نماز جنازے کی ادائیگی کے وقت بھی ابا کا جسم اسی مقام پر موجود تھا جہاں وہ ساری زندگی امامت کرتے رہے۔

        نماز جنازے کی تکمیل کے بعد جب جلوس جنازے مسجد کے باب الدخلہ سے باہر نکلا اس وقت اشراق کا وقت تھا اور یہ ہی وہ وقت تھا جب ابا اپنی زندگی میں بھی مسجد کے تمام معمولات مکمل کرکے گھر کی طرف لوٹتے تھے لیکن اس مرتبہ اسی مقررہ وقت پر ابااپنے آخرت کی گھر کی طرف چل پڑے۔والد محترم کی ساری زندگی جس انداز اور جن اوقات پر معمولات  کی تکمیل میں گزری ا ن کی آخرت کا سفر بھی اسی انداز اور ان ہی اوقات میں مکمل ہوا۔اللہ تعالیٰ ابا کی خدمات کو اپنے شایانہ شان قبول کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے